یہ قیل و قال و این و آں، یہ زمزمہ فضول ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: ذوالفقار نقوی


یہ قیل و قال و این و آں، یہ زمزمہ فضول ہے ‎ جو عشق ِ مصطفیٰ ۖ نہیں تو فکر تیری بھول ہے


‎زمیں، فلک، شجر، حجر، جہان کی یہ وسعتیں ‎ دل و دماغ و ذہن بھی قدم کی ان کے دھول ہے


‎وہ شمع ِ شش جہات ہے، شمیم ِ گلفراز ہے ‎ وہ شہر ِ علم و آگہی، جو تاز بر جہول ہے


‎وہ وجہ ِ خلقت ِ جہاں، وہ راہ ِ حق کا رہنما ‎ طہارتوں کا آئینہ، وہ والدِ بتول ہے


‎جو معرفت رسول کی نصیب میں ترے نہیں ‎ سکوت بھی عتاب ہے، یہ نطق بھی عدول ہے

‎لبوں پہ ذکر ِ مصطفیٰ ۖ، نفس نفس میں تان وہ ‎ قلوب پر بھی رحمتوں کا ہو رہا نزول ہے


‎مسافتوں کا ڈر نہیں، صعوبتوں کا غم نہیں ‎ غلامی ء رسول میں تو موت بھی قبول ہے


‎یہ نطق اور سکوت سے معاملہ ہے ماورا ‎ رگ ِ حیات میں مری، وہ عشق یوں حلول ہے


‎نبیۖ ، علی و فاطمہ ، تو کشتئ نجات ہیں ‎ درِ حسین ، زندگی کا مومنو! حصول ہے


‎ہو ذوالفقار ِ غم زدہ پہ اک نظر کرم کی اب ‎ وفور ِ اضطراب ہے، یہ زندگی ملول ہے